ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / مسلمانوں نے مل کر مودی سے کیا حاصل کیا از:حفیظ نعمانی

مسلمانوں نے مل کر مودی سے کیا حاصل کیا از:حفیظ نعمانی

Sun, 08 May 2016 15:45:37  SO Admin   INS India /SO News

حکومت اور مسلمانوں کے درمیان جو بداعتمادی کا ماحول ہے اسے دور کرنے کے لئے وزیراعظم سے شاید اب تک تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ دو ہفتے پہلے ایک ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وزیر اعظم سعودی عرب کے شاہ سے مل کر اور سعودی حکومت کا سب سے بڑا اعزاز لے کر وطن واپس آئے تھے۔ اس ملاقات میں قومی سلامتی کے مشیر اُڑیسہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، مسٹر الیاس اعظمی، مسٹر شاہد صدیقی، مولانا کلب جواد اور قربان علی صاحبان شامل تھے۔ اس وقت بعض اخباروں نے اپنے اپنے رنگ میں اس ملاقات پر لکھا تھا اور وزیر اعظم کے دفتر سے بھی ایک پریس نوٹ جاری ہوا تھا، جو یہ تاثر دینے کے لئے تھا کہ مسلمانوں کا وفد وزیر اعظم کو سعودی عرب کا سب سے بڑا اعزاز ملنے پر مبارکباد دینے کے لئے آیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔کل سہارا میں سینئر صحافی قربان علی صاحب نے ایک مضمون میں اس ملاقات کی وضاحت کی ہے اور کچھ اس انداز سے کہا ہے جیسے مسلمانوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا وہ صرف ان کا پہلے سے تیار کیا گیا وہ نوٹ تھا جو انہوں نے وزیر اعظم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پڑھا جس میں سچر کمیٹی اور جسٹس رنگناتھ مشرا کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنے اور مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر ان کو متوجہ کیا تھا۔ 
قربان علی صاحب کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ آپ واقعی اگر مسلمانوں کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس خوف کو دور کیجئے جو مسلمان محسوس کررہے ہیں۔
ہمارا موضوع یہ نہیں ہے کہ کس نے کس لئے بلایا تھا اور کس نے کیا کہا؟ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شاید یہ مسلمانوں کا تیسرا وفد تھا جسے وزیر اعظم کے دربار میں باریاب ہونے کا موقع ملا۔ یہ وفد چار ارکان پر مشتمل تھا یا دس پر یہ مسئلہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ ملک کے 18 کروڑ مسلمانوں کا ترجمان تھا؟ قربان علی صاحب نے جو مضمون لکھا ہے اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وفد کی طرف سے بس وہی تھے جنہوں نے وفد کے ترجمان کا فریضہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں اپنے کو سامنے رکھا ہے اور پی ایم او کو کہ میں نے کیا کہا۔ اور وزیر اعظم کے دفتر سے کیا کہلایا گیا۔ وفد کے محترم ارکان اور دوسرے ان حضرات کو جو شاید پھر کسی موقع پر ملاقات کریں ان کو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کیا کہیں یہ وہ جانیں۔ دنیا کو جو بتایا جائے گا اور دنیا جسے معتبر مانے گی وہ سرکاری بیان ہوگا جو پی ایم او سے جاری کیا جائے گا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نمائندہ وفد نے یہ یہ کہا۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ دہلی میں ہی ملک کے ان مسلمانوں کو جو گلے گلے تک اس موضوع پر بول رہے یا لکھ رہے ہیں ایک دن کے لئے بلا لیا جاتا اور یہ فیصلہ کیا جاتا کہ ایک مشترکہ بیان تیار کرلیا جائے جس میں کم سے کم الفاظ میں وہ سب آجاتا جو مسلسل کہا اور لکھا جارہا ہے؟ اور اس کے بعد یہ فیصلہ کرلیا جاتا کہ کس کو کیا کہنا ہے؟ اور وہ صرف اتنی بات ہی کہتا جو اسے کہنا ہے دوسری بات دوسرا اور تیسری بات تیسرا کہتا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقات کم از کم تین گھنٹے تک جاری رہتی۔ تاکہ روز روز یہ سننے کو نہ ملتا کہ میں نے یہ کہا، خیرالدین نے یہ کہا، مولا بخش نے یہ کہا اور بلاقی پہلوان نے یہ کہا۔ بات یہ نہ ہونا چاہئے کہ ہم نے کیا کہا۔ بات یہ ہونا چاہئے کہ ہماری کس بات پر وزیر اعظم نے کیا کہا اور وزیر اعظم کی کس بات پر کس نے کیا کہا؟ اس ملاقات کے بارے میں کئی بار کہا گیا ہے کہ وزیراعظم سے یہ یہ یہ کہا گیا۔
ایک ملاقات تو وہ ہوتی ہے جس میں ایک وفد جاتا ہے اور رونا روکر چلا آتا ہے۔ ایک وہ ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم وہ ہیں جو آپ کے خیرخواہ ہیں، اور آپ جو بھی کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں جو بھی وفد وزیر اعظم سے اس کی گفتگو ریکارڈ کی جائے اور مسلمان فریاد نہ کریں گفتگو کریں۔ ان سے معلوم تو کریں کہ ان کی حکومت آنے کے بعد آر ایس ایس کی شاکھا میں جانے والے ہر ہندو نے یہ کیوں سمجھ لیا کہ اب ان کی حکومت آگئی۔ اور وہی پولیس ہیں، وہی جج ہیں اور وہی جلاد بھی ہیں؟؟ مسلمان مانتے ہیں کہ کانگریس کے زمانہ میں جتنے مسلمان مارے گئے ہیں اس کی گنتی کسی کے پاس نہیں ہے۔ اور بی جے پی کے زمانہ میں بڑا فساد چاہے وہ جتنا بھی بھیانک ہو گجرات کا ہے۔ اور دوسرا کوئی نہیں۔ اس کے باوجود مسلمان کانگریسی ہندو کو بی جے پی کے ہندو سے اچھا سمجھتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ دونوں کی کہنی اور کرنی میں فرق ہے۔ اور سب سے بڑے بے وقوف وہ ہیں جنہیں بی جے پی نے اپنا ترجمان بنایا ہے۔ وہ جب بات کرتے ہیں تو مسلمان کو کانگریس کے کھاتے میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ ترجمان تو چھوٹے آدمی ہوتے ہیں پارٹی کے تو صدر امت شاہ نے بھی بہار کے الیکشن میں کہا کہ اگر لالو جیت گئے تو گلی گلی گاؤں گاؤں گائے کے گوشت کی دکانیں کھل جائیں گی اور پاکستان میں پٹاخے چھوٹیں گے۔ بہار ہندو اکثریت کا صوبہ ہے۔ مسلمان چار ضلع میں اچھی تعداد میں ہیں۔ انہیں پاکستان کی دشمنی تو تعلقات تو شری لنکا سے بھی خراب ہیں۔ پٹاخے فضا میں کیوں نہیں چھوٹیں گے؟
وزیر اعظم سے اہم بات یہ کرنا چاہئے کہ آر ایس ایس کا حکومت پر کتنا اثر ہے؟ سنگھ کے ایک لیڈر حکومت کو کس رشتہ سے یہ حکم دے رہے تھے کہ اسے پرائیویٹ اسکولوں اور پرائیویٹ اسپتالوں میں کیا کرنا چاہئے؟ اور کیوں حکومت کے وزیر اور آپ اپنی کارگذاری کی رپورٹ لے کر ان کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں؟ اور یہ کیسی دہشت ہے جس کے خلاف ملک کے وہ عالم اور دانشور جن پر ملک کو ناز ہے وہ اپنے ایوارڈ واپس کرنے کے لئے نکل پڑے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ یہ تو جانتے ہیں کہ اب تک سو سے زیادہ ایسے مسلمان باعزت بری ہوچکے ہیں جنہیں دہشت گرد اور حافظ سعید کے لشکر طیبہ کا کارکن بتاکر گرفتار کیا گیا تھا۔ یا کہیں بھی کوئی دھماکہ ہو اس کا ذمہ دار بتاکر جیل میں ڈال دیا تھا۔ ہر چند کہ ان میں سے کسی کی گرفتاری مودی سرکار کے زمانہ میں نہیں ہوئی لیکن گجرات میں مودی کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے گرفتاریاں خوب ہوئیں۔ اب اگر وزیر اعظم باعزت بری ہونے والوں کو بہت معقول معاوضہ دلادیں اور جن ایجنسیوں نے گرفتار کرکے جھوٹے الزام لگاکر برسوں جیل میں سڑا دیا تھا انہیں سزا دلادیں اور آئندہ کے لئے طے کردیں کہ جسے گرفتار کیا جائے تو اس کا مقدمہ تین مہینے میں عدالت کو سماعت کے لئے دیا جائے۔ ورنہ بری کردیا جائے۔ تو انہیں مسلمانوں کے وفد بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مسلمانوں کو قریب لانا اور نہ لانا وزیر اعظم کے اوپر منحصر ہے۔ وہ اپنا رویہ تبدیل کردیں اور اب حافظ سعید کی جگہ اظہر مسعود کو نہ رکھیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ بے قصور مسلمانوں کو باعزت رہا کرانے میں مولانا ارشد مدنی نے شاید سو کروڑ خرچ کردیئے ہوں گے۔ کیا حکومت وکیلوں کی ہم سے پرورش کرا رہی ہے؟(ایس او نیوز/آئی ین ایس )


Share: